محب وطن صحافیوں کی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پولیس گردی، صحافیوں پر تشدد کی پرزور مذمت، محب وطن صحافیوں کے ہردلعزیز متفقہ راہنماء الحاج چنگیز خان جدون کی زیر صدارت رات گئے ہنگامی اجلاس، نیشنل پریس کلب کے صحافیوں پر پولیس حملے کے بعد کی صورتحال پر غور، نیشنل پریس کلب انتظامیہ کا ردعمل مایوس کن، صحافیوں کی ناک کٹوانے میں نام نہاد صحافتی لیڈران برابر کے ذمہ دار، چنگیز خان جدون کی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل سے فوری ایکشن لینے کی اپیل
اسلام آباد (اقراء لیاقت خان) ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ روز نیشنل پریس کلب کے باہر پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے صحافتی برادری کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے احاطے میں پولیس کے ہاتھوں محب وطن صحافیوں پر ہونے والی بدترین لاٹھی چارج، دھکم پیل، اور تشدد نے آزادیٔ صحافت کے چہرے پر بدنما داغ لگا دیا ہے۔ اس تشدد کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے محب وطن صحافیوں کے ہردلعزیز، متفقہ اور قابلِ احترام راہنماء الحاج چنگیز خان جدون کی زیر صدارت رات گئے نیشنل پریس کلب میں ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں ملک بھر کے ممتاز صحافیوں، نیوز ایڈیٹرز، بیورو چیف صاحبان، اور میڈیا نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق جمعہ کی شام کو نیشنل پریس کلب کے باہر صحافیوں کی ایک بڑی تعداد آزادیٔ صحافت کے حق میں پُرامن احتجاج کر رہی تھی، جب اچانک پولیس کی بھاری نفری نے نہ صرف مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی بلکہ کئی سینئر صحافیوں، فوٹو جرنلسٹس اور نیوز کورسپونڈنٹس پر بھی تشدد کیا۔ بعض صحافیوں کو ان کے کیمروں اور موبائل فونز سے محروم کر دیا گیا، جبکہ کئی رپورٹرز زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیے گئے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب صحافی اپنے ساتھیوں کے خلاف حالیہ گرفتاریوں اور میڈیا اداروں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس موقع پر موقع پر موجود صحافیوں نے بارہا پولیس کو بتایا کہ وہ صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، تاہم قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے کسی بھی وضاحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے طاقت کا بے جا استعمال کیا۔
اس واقعے کے بعد رات گئے نیشنل پریس کلب میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، جس کی صدارت محب وطن صحافیوں کے قائد الحاج چنگیز خان جدون نے کی۔ اجلاس میں ملک کے تمام بڑے میڈیا گروپس کے نمائندے، سینیئر رپورٹرز، کیمرہ مین، سوشل میڈیا جرنلسٹس اور ایڈیٹوریل سٹاف شریک ہوئے۔
اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا، جس کے بعد الحاج چنگیز خان جدون نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ:
"مظاہرے کی کوریج کرنا کوئی جرم نہیں، بلکہ صحافی کا بنیادی فرض ہے۔ صحافی قوم کی آنکھ اور کان ہیں۔ ان پر حملہ دراصل سچائی پر حملہ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اس ملک کے محب وطن صحافیوں نے ہمیشہ قومی سلامتی، یکجہتی اور عوامی شعور کے فروغ کے لیے قربانیاں دی ہیں، مگر آج افسوس کا مقام ہے کہ وہی لوگ جو عوام کے دکھ درد اجاگر کرتے ہیں، خود ریاستی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اجلاس میں شریک صحافیوں نے نیشنل پریس کلب انتظامیہ کے مبینہ "غیر سنجیدہ رویے" پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ الحاج چنگیز خان جدون نے کہا کہ:
"پریس کلب انتظامیہ کا ردِعمل نہایت مایوس کن ہے۔ جب صحافیوں پر لاٹھیاں برس رہی تھیں، ان کے نمائندے کہاں تھے؟ جو لوگ خود کو صحافیوں کے لیڈر کہتے ہیں، وہ اس واقعے کے وقت غائب کیوں رہے؟"
انہوں نے واضح کیا کہ نام نہاد صحافتی لیڈران اپنے ذاتی مفادات کے لیے پریس کلب کے پلیٹ فارم کو استعمال کر رہے ہیں، اور وہی لوگ دراصل "مافیا" کے آلہ کار بن چکے ہیں جو آزادیٔ صحافت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔
"جو لوگ صحافت کے نام پر اپنے مفادات کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اب جواب دینا ہوگا۔ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ اپنی صفوں کو درست کرنے کا ہے۔" اجلاس کے اختتام پر الحاج چنگیز خان جدون نے وزیرِ اعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل سے فوری ایکشن لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں اور ان کے اعلیٰ افسران کے خلاف نہ صرف تحقیقات کی جائیں بلکہ ان کو مثالی سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی ادارہ یا شخص آزادیٔ صحافت کے بنیادی اصولوں کو پامال کرنے کی جرات نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ محض چند افراد پر حملہ نہیں بلکہ پورے صحافتی پیشے پر حملہ ہے۔ اس لیے اس واقعے کو محض انتظامی غلطی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چنگیز خان جدون نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے، جو اس واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک انصاف فراہم نہیں ہوتا، محب وطن صحافی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ہنگامی اجلاس کے دوران سینکڑوں صحافیوں نے پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر "پریس کی آزادی ہماری پہچان"، "تشدد نامنظور"، "سچ پر پہرہ نہیں"، جیسے نعرے درج تھے۔ احتجاج کے دوران ماحول پُرامن رہا، تاہم پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
اجلاس سے باہر خطاب کرتے ہوئے متعدد صحافیوں نے کہا کہ یہ واقعہ دراصل آزادیٔ اظہارِ رائے کو دبانے کی ایک سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صحافت کوئی جرم نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ ہے۔
واقعے کے بعد ملک بھر سے سول سوسائٹی، وکلاء، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی تشدد کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پولیس کو ایسے واقعات کی اجازت نہیں دی جا سکتی جن سے ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو۔
پریس کلب کے باہر رات گئے تک سول سوسائٹی کے نمائندے اور انسانی حقوق کے کارکنان صحافیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے موجود رہے۔
الحاج چنگیز خان جدون نہ صرف محب وطن صحافیوں کے متفقہ راہنماء ہیں بلکہ ایک ایسی آواز ہیں جو ہمیشہ سچ اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر نہ صرف صحافت کے تقدس کا دفاع کیا بلکہ میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر منوانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
چنگیز خان جدون کی قیادت میں محب وطن صحافیوں کی تنظیم نے ہمیشہ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ، قومی مفادات کے تحفظ اور عوامی مسائل کے اجاگر کرنے کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ ان کی گفتگو میں عزم، جذبہ اور حقیقت کی پہچان نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
"ایک صحافی کا قلم، قوم کا محافظ ہوتا ہے۔ جب قلم پر قدغن لگتی ہے، تو سچائی دفن ہو جاتی ہے۔" اجلاس میں شریک صحافیوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں آزادیٔ صحافت کو محفوظ بنانا پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔ آج اگر ریاست صحافت کو دبانے میں کامیاب ہو گئی تو کل عوام کی آواز بھی خاموش ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آزاد میڈیا دراصل جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اگر اس پر حملے جاری رہے تو جمہوری اقدار کو شدید نقصان پہنچے گا۔
اجلاس کے اختتام پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ محب وطن صحافی آئندہ ہفتے ملک بھر میں "یومِ تحفظِ صحافت" منائیں گے۔ اس موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاجی جلسے، پریس کانفرنسیں اور آگاہی مہمات چلائی جائیں گی تاکہ عوام کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جا سکے کہ آزادیٔ صحافت دراصل عوام کی آزادی ہے۔
"ہم کسی سے تصادم نہیں چاہتے، مگر اگر کوئی طاقت سچ کو دبانے کی کوشش کرے گی تو ہم آخری سانس تک مزاحمت کریں گے۔ ہم محب وطن ہیں، اور وطن کے دفاع میں اپنی آواز کبھی بند نہیں کریں گے۔"
رپورٹ: پوائنٹ نیوز ڈیجیٹل